تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حوزہ نیوز ایجنسی | طوفان الاقصٰی نے عالم بشریت کی فکر کو تبدیل کیا کہ اسلحے کی طاقت سے جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔ تاریخ کے اوراق میں جنگی داستانیں بھری پڑی ہیں، جس میں قتل و غارتگری کے باب کے مطالعہ سے دل دہل جاتا ہے۔ ہر سال 10, محرم الحرام، 6 اور 9 اگست کو ظلم، ظالم، قاتل اور مقتول کو یاد کر یہ بتایا جاتا ہے کہ قاتل اور مقتول، دہشت گرد اور امن پسند، اسلحے کا پجاری اور انسانیت کی حفاظت کرنے والا کون ہے؟ ان تاریخوں کی یاد دلانے کے پس پردہ مطلوبہ ہدف حاصل ہوتا ہے کہ قاتل کو اپنا چہرہ چھپانے کا موقع نہیں ملتا۔ ظلم کی تاریخ کو اپنے معاشرے کا ثقافت قرار دینے سے نتائج اخذ یہ ہوا کہ نادان لوگ بھی قاتل کی پہچان کر سکیں۔ پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا بھی ناکامی کے تاریک گہرائیوں میں پہنچ کر زندگیوں میں ہلاکت تصور کر رہا ہے۔ اسے ضمیر فروش کہا جانے لگا ہے، وقار افتخار کھو چکا ہے۔
طوفان الاقصٰی کا آغاز 7, اکتوبر 2023 کی صبح ہوا۔ کیا اس جنگ کے اثرات، نتائج و نصائح سامنے آئے؟ وہ کون سے ممالک ہیں جو اس جنگ میں شامل ہیں؟ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے طاقتور ممالک ہر طرح کی مدد و سہولیات مہیا کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے ساتھ وہ ممالک ہیں جن میں کربلا کا آفاقی پیغام، حیدری شجاعت، حسینی کردار، عباس باوفا جیسا علمبرداری اور جن کے لیے شہادتیں شہد سے زیادہ شیریں، وراثت اور باعث فخر و افتخار ہیں۔ ان ممالک کے نام ہیں جو فلسطینیوں کے شانہ بہ شانہ، قدم سے قدم ملا کر غاصب، قاتل، جھوٹے، مکار و فریبی، اسلام و انسانی دشمن صیہونیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جیسے ایران، عراق، شام، لبنان اور یمن ورنہ تن و تنہا ایک سال سے زیادہ عرصے تک فلسطینیوں کے لیے مقابلہ آسان نہ تھا۔ 56 عرب و مسلم حکمرانوں میں ایسے ہیں جو اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں ان کے نام ہیں ترکی، اردن، مصر، سعودی عربیہ، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، اور مراکش وغیرہ۔ کچھ ایسے بھی مسلم حکمران ہیں جو خاموشی و پوشیدہ طور پر معصوم خواتین اور بچوں کے قاتل کی مدد کر رہے ہیں اور چند ایسے ہیں جو ظالم کے ظلم پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
عرب حکمرانوں کا فلسطینیوں سے دغا
یہ کوئی غیر مسلم یا عجم نہیں کہہ رہا ہے بلکہ یہ عرب حکمرانوں کا غیر ایمانی اور مسلم مخالف منصوبہ ہے جس کو عام کیا ہے، واٹر گیٹ پر رپورٹنگ پر مشہور ہوئے 81 سالہ صحافی و مصنف باب ووڈ وارڈ جنھوں نے اپنی کتاب "وار" میں لکھ کر بتایا ہے کہ عرب حکمرانوں نے فلسطینیوں سے تاریخ کا سب سے بڑا دغا کیا ہے۔ حالانکہ عرب کے لوگوں کی یہ پرانی خصلت ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ بہر کیف، با شعور، با اخلاق، با ایمان انسانوں سے محبت اور ہمدردی کرنے والوں کو یہ جاننا اور پہچاننا ضروری ہے۔ یہ کتاب "وار" دو ہفتے قبل بازار میں آئی ہے جس کی قیمت یو ایس 32 $ ہے۔
ووڈ وارڈ کی کتاب "وار" سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً تمام عرب ممالک نے اسرائیل کی "طوفان الاقصٰی" کی جنگ میں مدد کی ہے، مسلم حکمران حماس کا خاتمہ اور اسرائیل کی فتح چاہتے تھے۔
دغا اور منصوبوں کی تفصیلات کا انکشاف امریکہ کے سکریٹری آف اسٹیٹ، اینٹونی جان بلنکن کی ملاقات مسلم حکمرانوں کے دوران ہوا۔ اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے 13 اکتوبر کو بلنکن کے ساتھ ملاقات کی۔ اس ملاقات کے چند گھنٹے بعد بلنکن دوحہ گئے اور قطر کے امیر تمیم بن حمدالثانی سے ملاقات کی۔ ووڈ وارڈ نے نوٹ کیا کہ بلنکن غزہ کے بحران کو حل کرنے کے لیے قطر کے واضح منصوبوں سے بہت متاثر ہوئے تھے جس کی بنیاد فلسطینیوں سے دغا پر تھی۔
ووڈ وارڈ کی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ بلنکن سعودی عرب جاتے ہوئے بحرین میں شاہ حمد بن عیسیٰ الخلیفہ سے ملاقات کی۔ بحرین کے بادشاہ نے اردن کے بادشاہ کی طرح حماس کا مقابلہ کرنے اور اسے تباہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
14 اکتوبر 2023 کو اینٹونی بلنکن نے ریاض میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان سے ملاقات کی اور کہا کہ حماس خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور اسے تباہ اور اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ عرب چوغہ والے ذلیل و دغاباز نے خدشہ ظاہر کیا کہ حماس کا اثر بڑے خطے میں پھیل سکتا ہے جبکہ اس یہودی نواز کے ملک میں امریکن ایئر بیس اور ملٹری اڈے ہیں اور عربوں ڈالرز کے ہر سال ہتھیاروں کی خریداری کرتا ہے۔
ان ملکوں کے دورے اور ملاقات کے بعد بلنکن نے متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید کے ساتھ ملاقات کی جس میں زاید نے حماس کی مکمل تباہی تک جنگ جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور ہر طرح کی مدد کرنے کا عہد کیا۔ اسرائیل واپسی سے پہلے اینٹونی بلنکن مصر میں عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں مصری انٹیلی جنس کے سربراہ، عباس کامل نے بلنکن کو تجویز دی کہ اسرائیل رفتہ رفتہ غزہ میں داخل ہو اور اسے حماس کی سرنگوں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کیں۔ اس کتاب "وار" سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل چاہتا تھا کہ فلسطینی رفع بارڈر کراس کر مصر میں داخل ہوں یا دیگر ملکوں میں چلے جائیں لیکن خبیث السیسی نے ایسا نہ ہونے دیا۔ انھیں اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونا اسے دیکھنا منظور و پسند تھا۔
جب یہ مسلم حکمران، مسلمانوں اور فلسطینیوں کے غدار ہیں تو ترکی کے صدر طیب اردوغان پیچھے کیوں رہ سکتے ہیں۔ آج کا جعلی خلیفہ طیب اردوغان بے نقاب ہو چکے ہیں۔ نقلی خلیفہ بن کر اپنے آپ کو محمد مصطفٰی ﷺ کا امتی قرار دینے کا ڈرامہ کر رہے تھے، کبھی مسجد میں دکھائی دیئے، کبھی قرآن خوانی کرتے دیکھے گئے، یہ بھی کہتے سنے گئے کہ اسرائیل قاتل ہے، معصوم خواتین اور بچوں کا قتل عام کر رہا ہے، جبکہ اردوغان اسرائیل کو بم بارود، ایندھن، اسلحے، خوراک، دوائیں اور اب تو یہاں تک راز فاش ہوا کہ اردوغان صاحب نے اپنی فوج بھی اسرائیل بھیج رکھی ہے جو صیہونیوں کے شانہ بہ شانہ فلسطینیوں کو شہید کر رہے ہیں۔ تعزو منتشا، تزل منتشا۔ جس کو اللہ ذلیل کرتا ہے وہ عزت کہاں پا سکتا ہے۔ ترکی کے شہر استنبول میں ہزاروں اسرائیلی کنٹنرز لوڈ ہو رہے ہیں، عوام سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے۔ یہ ہے رجب طیب اردوغان کا مکروہ عزائم و چہرہ۔
یہ تحریر کرنا لازمی ہے کہ ایسا کوئی جنگی جرم نہیں جس کا ارتکاب صیہونیوں نے نہ کیا ہو۔ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کا فلسطینیوں کا قتل کئے جانے پر مذمت نہ کئے جانے کو ان کا رویہ قابل مذمت ہے۔ آج سے چند سال قبل انسان کے پاس اتنا وسائل موجود نہیں تھا کہ جو کچھ ہوا اور پردے کے پیچھے چل رہا ہے اس چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ لیکن آج کا انسان اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ پہلے باطل قوت ہر نظریہ و تاریخ کو اپنے انداز میں پیش کرتا تھا لیکن آج یہ ممکن نہیں رہا کہ کسی چیز کو پوشیدہ رکھا جا سکے۔
یہودی نسل، محمد بن سلمان کی ذلالت لوگ دیکھ رہے ہیں اور غمزدہ ہیں کہ حرمین شریفین کی نگرانی کرنے والے کا یہ کالا کرتوت ہے۔ آپ دیکھیں کہ غزہ میں ایک سال سے جنگ جاری ہے، 60 ہزار مظلوم بے گناہوں کو شہید کیا جا چکا ہے، لاکھوں زخمی بغیر دوا اور علاج کے سڑکوں پر پڑے ہیں اور اس سے زیادہ رہائش گاہ تباہ ہو گئے ہیں لیکن ایک بھی تکفیری مدد کے لیے آگے نہ آئے اور نہ ہی آواز بلند کی کیونکہ ان کی ڈوری سعودی عرب کے ہاتھوں میں ہے اور سعودی عرب کی ڈوری امریکہ و اسرائیل کے ہاتھوں میں ہے۔ لہٰذا یہ تکفیری صرف صیہونی مفاد کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے نہ کہ اسلامی، ایمانی اور انسانی مفاد کے لیے۔
طوفان الاقصٰی کا فاتح کون؟ یہ مذاق لگ رہا ہے کہ دنیا جسے بہادر اور طاقتور بتا رہی تھی وہ، بنیامین نیتن یاہو ایران سے خوفزدہ ہوکر بنکر میں چھپ جاتے ہیں اور ادھر دھمکی ملنے پر 85 سالہ مرد مجاہد فرزند علیؑ 4 اکتوبر 2024 بروز جمعہ کروڑوں نمازیوں کے ہمراہ زیر آسمان مصلے پر تاریخی اور یادگار نماز ادا کی، یہ نماز پوری دنیا میں لائیو نشر ہوئی، لوگوں نے مشاہدہ کیا، مومنین کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچی، دشمن ابتر دکھا، آوازیں بلند ہوئیں، واہ! فرزند فاتح بدر، حنین، احد، خیبر و خندق اور فاتح مبین طوفان الاقصٰی!
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔